زینب کا یہ قاتل زینب کے جنازے میں کس شخص کو دیکھ رہا تھا؟ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ منہ چھپانے لگا
لاہور (نیوز ڈیسک) زینب کے قتل کے بعد یہ نماز جنازہ میں شریک ہوا اور احتجاج میں پیش پیش رہا۔ ملزم بچیوں کو اس وقت اغوا کرتا جب وہ دکان یا گلی محلے میں کھیلتی ہوئی اکیلی پائی جاتی تھیںتفصیلات کے مطابق آٹھ بچیوں کا قاتل عمران قصور شہر میں کورٹ روڈ کا رہائشی تھا ملزم نعت خوانی کی محفلوں میں نقابت کرتا اس کے لیے اپنا کارڈ بھی چھپوایا تھا۔ جہاں اس کا نام عمران علی نقشبندی درج تھا، اس کے پاس کوئی روزگار نہیں تھا۔ یہ بات کہ وہ راج مستری کا کام کر تا تھا درست نہیں۔ یہ چھوٹی موٹی چوریوں میں ملوث تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جیب تراشی میں بھی پکڑا جا چکا ہے۔ مذہبی محافل میں نعت خوانوں پر جب نوٹ نچھاور کیے جاتے تو یہ داؤ لگا کر وہ اچک لیتا تھا۔ زینب کے ماموں زاد مزمل انصاری کے مطابق ان کے خاندان والوں نے اس شخص کے بارے میں ابتدا ہی سے پولیس کو اپنے شکوک و شبہات سے آگاہ کیا تھا جس کے بعد 9 جنوری کو اسے حراست میں لیکر تفتیش کی گئی جس کے دوران اس نے مرگی کے دورے کا ڈرامہ رچایا اور رہائی پائی تاہم اس کی نگرانی کی جاتی رہی اس کا پہلا ڈی این اے ٹیسٹ 14 جنوری کو ہوا جس کے بعد یہ شہر چھوڑ کر چلا گیا۔پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تو وہ وہاں موجود نہیں تھا۔ جس کے بعد اسے پاکپتن سے پکڑ کر لایا گیا اور 20 جنوری کو اس کا دوسرا ڈی این اے ٹیسٹ ہوا جس کی تصدیق ہوئی، ملزم ٹاؤن شپ کے قریب کسی علاقے میں ٹھہرا۔ ملزم انتہائی عیار اور مکار تھا، ہر واردات کے بعد حلیہ تبدیل کر لیتا۔ اگر کلین شیو ہوتا تو واردات کے بعد داڑھی بڑھا لیتا، کبھی اسے ترشوا لیتا اور کبھی مکمل صاف کرا لیتا۔ کبھی کبھار چشمے کا استعمال کرتا۔ اپنا زیادہ وقت آوارہ گردی میں گذارتا۔ گھر سے کئی ہفتے غائب رہتا محلے میں جھلا بن کر رہتا تا کہ کسی کو شک نہ گذرے۔ زینب کے قتل کے بعد یہ نماز جنازہ میں شریک ہوا اور احتجاج میں پیش پیش رہا۔ ملزم بچیوں کو اس وقت اغوا کرتا جب وہ دکان یا گلی محلے میں کھیلتی ہوئی اکیلی پائی جاتی تھیں جبکہ متعدد بچیاں گھروں سے دور کی دکانوں پر دودھ یا دہی وغیرہ لینے کے لئے جاتیں اور راستے میں اغوا کر لی جاتیں۔ اس کے بعد ملزم بچیوں کو بہلا پھسلا اور منہ پر ہاتھ رکھ کر اُسے چادر میں لپیٹ کر رات گئے کسی زیر تعمیر مکان میں لے جاتا درندگی کا شکار کر کے اُس کی گردن توڑ کر اُسے قتل کر دیتا اور اُسکی نعش کو کچرے کے ڈھیر یا زیر تعمیر مکان میں پھینک کر فرار ہو جاتا۔ ملزم کے 7 بہن بھائی ہیں اور یہ سب سے بڑا ہے اس کا والد محمد ارشد مغل ڈیرھ ماہ پہلے وفات پا چکا ہے اور گذشتہ جمعہ کو ہی اُس کے چالیسویں کا مقامی مسجد میں ختم تھا۔
Comments
Post a Comment